مہر خبررساں ایجنسی، دین و عقیدہ ڈیسک: اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کو انسانوں کی ہدایت کے لیے نازل کیا ہے۔ اللہ تعالی انسانوں کو اعلی اور بافضیلت مقام تک پہنچانا چاہتا ہے جس کے لئے ہر وہ چیز عطا کی ہے جو فضیلت کے اعلیٰ مقام تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے۔ قرآن کریم میں اس حوالے سے رہنما اصول بیان کیے گئے ہیں۔
قرآن کریم دین کی تفہیم کا سب سے پہلا اور بنیادی ذریعہ ہے، اس لیے اس کی تفسیر میں صرف الفاظ کے معانی پر اکتفا نہیں کیا جاتا لہذا ان کو سیکھنے اور سمجھنے کے لئے تفسیر اور توضیح کی ضرورت ہے۔ قرآن کریم کی تفسیر اور اس کو سمجھنے کی کوشش نبی اکرم (ص) کے زمانے سے آج تک جاری ہے۔ قرآن کی ابدیت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ہر دور میں اس کی تشریح اور وضاحت جاری رہے۔
قرآن مجید کو انسانوں کے لئے ہدایت قرار دیا گیا ہے: (ہُدیً لِلنَّاسِ) "یہ انسانوں کے لیے ہدایت ہے"
"زندگی قرآنی آیات کی روشنی میں" کے سلسلہ تحریر کا مقصد قارئین کو آیات قرآنی کے معانی، مفاہیم اور پیغامات سے آگاہ کرنا ہے۔
فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَمَن تَابَ مَعَكَ وَلاَ تَطْغَوْاْ إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
پس (اے محمدؐ) تم، اور تمہارے وہ ساتھی جو (کفر و بغاوت سے ایمان و طاعت کی طرف) پلٹ آئے ہیں، ٹھیک ٹھیک راہ راست پر ثابت قدم رہو جیسا کہ تمہیں حکم دیا گیا ہے اور بندگی کی حد سے تجاوز نہ کرو جو کچھ تم کررہے ہو اس پر تمہارا رب نگاہ رکھتا ہے۔
اس آیت مجیدہ مین رسول گرامی اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کو استقامت کا حکم دیا گیا ہے۔ حقیقی استقامت وہی ہے جو زندگی کے تمام شعبوں میں ظاہر ہو، خواہ وہ عبادت ہوں یا معاملات، ذاتی زندگی ہو خواہ اجتماعی امور۔
روایات میں آیا ہے کہ نبی اکرمؐ نے فرمایا: سورۂ ہود نے مجھے بوڑھا کردیا۔ بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ یہی آیت اس کی وجہ تھی پس استقامت اختیار کرو، جیسے تمہیں حکم دیا گیا ہے۔
اگرچہ یہ جملہ قرآن کی دیگر سورتوں میں بھی آیا ہے، لیکن یہ آیت خاص طور پر مشہور ہو گئی۔ اس کی شدت شاید اس لیے تھی کہ اس میں صرف نبی اکرمؐ کی نہیں، بلکہ ان کے ساتھیوں کی استقامت کی بات بھی تھی جو سب کے سب وفادار نہ رہے، اور ان کی بے وفائی نے نبی اکرمؐ کو غمزدہ کردیا۔
اہم نکات
جب اللہ تعالی ہر ایک کو اس کے اعمال کا مکمل بدلہ دے گا، تو مقاومت اور استقامت اختیار کرنی چاہیے۔ "ہر کسی کو اس کا پورا بدلہ دیا جائے گا... پس ثابت قدم رہو۔"
انبیا کی تاریخ کا خلاصہ مقاومت ہے۔ "پس استقامت اختیار کرو۔"
معاشرے کے قائد اور رہبر کو مقاومت میں سب سے آگے ہونا چاہیے۔ "پس استقامت اختیار کرو۔" مکّہ میں ابتدائی مسلمانوں کے لیے حالات سخت تھے، اور استقامت کی اشد ضرورت تھی۔
مقاومت کی قدر و قیمت تب ہے جب وہ ہر پہلو میں ہو۔ "پس استقامت اختیار کرو۔"
عمل ہمیشہ اللہ کے حکم کے مطابق ہونا چاہیے، نہ کہ قیاس، اندازے یا خواہشات کے مطابق۔ "جیسے تمہیں حکم دیا گیا ہے۔"
اگر رہبر مقاومت کرے، لیکن قوم نہ کرے، تو کوئی فائدہ نہیں۔ "اور جو تمہارے ساتھ توبہ کریں۔"
اللہ کی طرف حقیقی رجوع مقاومت اور استقامت کے بغیر ممکن نہیں۔ "اور جو تمہارے ساتھ توبہ کریں۔"
ہر کام حکم خدا کے مطابق ہی ہونا چاہیے۔ کسی بھی کام میں حد سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔ "جیسے تمہیں حکم دیا گیا ہے... اور حد سے تجاوز نہ کرو۔"
رہبر اور قوم دونوں کو اعتدال کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ "پس استقامت اختیار کرو اور حد سے تجاوز نہ کرو۔"
دین میں مقاومت اور استقامت اللہ کے خاص انعام کا سبب ہے۔ "پس استقامت اختیار کرو... بے شک وہ تمہارے اعمال کو دیکھ رہا ہے۔"
آپ کا تبصرہ